انتظر قليلا 0%

اردو | اللہ تعالی کی حمد وثناء کا بیان



اللہ تعالی کی حمد وثناء کا بیان

یہ خطبہ، بروز جمعہ ٢ربیع الاول ١٤٤٣ھ کو مسجد نبوی میں دیا گیا ہے۔

word   PDF  |  الخطبة باللغة العربية (AR)


بلاشبہ تمام تعریفیں اﷲ کے لئے ہیں ۔ہم اسی کی حمد بيان کرتے ہیں اور اُسی سے مدد طلب کرتے ہیں اور اسی سےگناہوں کی بخشش مانگتے ہیں ۔نیز ہم اپنے نفس کے شرّ اور اپنے اعمال کی برائیوں سے اﷲ کی پناہ چاہتےہیں ۔جسے اﷲ ہدایت دے اُسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے وہ گمراہ کر دے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ۔

مَیں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ۔وہ ایک ہے اُس کا کوئی شریک نہیں اور مَیں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اﷲ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں ۔اللہ تعالی آپ پر اور آپ کے تمام آل واصحاب پر بےشماردرودوسلام نازل فرمائے ۔

حمد و ثناء کے بعد :

اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ سے کماحقہ ڈرو اور دین ِاسلام کو مضبوطی سے لازم پکڑے رہو۔

اے مسلمانو!

اللہ کی معرفت ہی اصل دین ہے اوراللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنی معرفت کا جو راستہ بتایا ہے وہ اس کے اسماء و صفات ہیں۔چنانچہ قرآن کریم میں اللہ کے اسماءو صفات اور افعال کا ذکر حلال اور حرام کی آیات سے بھی زیادہ آیا ہوا ہے۔ اور اللہ کے ناموں میں سے ایک نام “الحَمِید” ہے،یعنی اللہ کےاتنےاوصاف اوراس کے اندر تعریف کےایسے اسباب پائےجاتے ہیں جن کاتقاضہ ہے کہ وہ بذاتِ خودمحمود(لائقِ تعریف) ہو اگر چہ کوئی دوسرا اس کی تعریف وتوصیف نہ کرے، اللہ تعالیٰ نے اپنے نام الحمید کو اپنی کتاب میں عزت، ولایت یعنی محبت، مجد یعنی عظمت غنى یعنی بے نیازی اور حکمت جیسے اوصاف کے ساتھ ذکر کیاہے ۔

اور اللہ سبحانہ وتعالی کی حمد کے معنی یہ ہیں کہ اس کی صفاتِ کمال اور اوصافِ عظمت وجلال کو ذکر کے اس کی ثناء وتعریف بیان کی جائے اوراس کی محبت وتعظیم کے ساتھ اس کی خوبیاں اورمحاسن بیان کئے جائیں، چنانچہ اللہ تعالی کے ذاتی کمال وجمال نیز اس کے افعال اور مخلوقات پر اس کے احسان واکرام کی بدولت اس کی تعریف وتوصیف بیان کی جائے۔

اللہ تعالیٰ نےخود اپنی حمد وثناء بیان کی ہے اور وہ مدح و ثناء کو پسند کرتا ہے اور اللہ تعالٰی کا اپنی مدح و ثناء کرنا سب سے اعلی وعظیم مدح ہے کیونکہ وہ کس قدر تعریف کا مستحق ہے اس سے زیادہ کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی اس کی مخلوقات میں سے کوئی اس کی ثناء کا شمار اور احاطہ کر سکتا ہے،فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: «لَيْسَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ المَدْحُ مِنَ اللَّهِ، مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ مَدَحَ نَفْسَهُ» (بخاری ومسلم) “اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی نہیں جسے مدح پسند ہو، اسی لیے اس نے خود اپنی مدح فرمائی ہے”۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “در حقیقت اس میں بندوں ہی کی مصلحت اوربھلائی ہے۔ کیونکہ جب بندےاللہ کی تعریف کرتے ہیں تو وہ ان کو اس پر اجر وثواب عطا کرتا ہے ، جس سےوہ فائدہ اٹھاتے ہیں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ تو تمام جہانوں سے بے نیاز ہے ، نہ تو ان کے تعریف کرنے سے اسے کوئی فائدہ پہنچتا ہے اور نہ ہی ان کے تعریف نہ کرنے سے اسکو کوئی ضرر لاحق ہوتا ہے” ۔

اوراللہ تعالیٰ نے تخلیق کا آغاز حمد سے کیا ہے، چنانچہ ارشادفرمایا: ﴿ٱلۡحَمۡدُ لِلَّهِ ٱلَّذِي خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضَ﴾ [الأنعام:1] “تمام تعریفیں اللہ ہی کے لائق ہیں جس نے آسمانوں اورزمین کو پیدا کیا” ۔

اور اس نے اپنی کتاب میں پانچ سورتوں کا آغاز حمد سے کیا ہےجن کے اندراس نے بتایا ہےکہ اسی نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا، کتابیں نازل کیں اوررسولوں کو بھیجا اوروہی ساری مخلوقات کو مارتا اور جلاتا ہے، ان سب باتوں کا آغازاپنی حمد ہی سے کیا ہے اور اپنی کتاب عظیم کے شروع میں اپنی ربوبیت پر خوداپنی تعریف کی ہے جو ربوبیت مذکورہ تمام امورکوشامل اور محیط ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا: ﴿ٱلۡحَمۡدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلۡعَٰلَمِينَ﴾ [الفاتحة:٢] “سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے”۔

اور حاملین عرش (فرشتے) اللہ کی تعریف کرتے رہتے ہیں اور سست نہیں ہوتے ﴿ٱلَّذِينَ يَحۡمِلُونَ ٱلۡعَرۡشَ وَمَنۡ حَوۡلَهُۥ يُسَبِّحُونَ بِحَمۡدِ رَبِّهِمۡ وَيُؤۡمِنُونَ بِهِۦ وَيَسۡتَغۡفِرُونَ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْۖ﴾ [غافر:٧] “عرش کے اٹھانے والے اور اس کے آس پاس کے فرشتے اپنے رب کی تسبیح حمد کے ساتھ ساتھ کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لیے استغفار کرتے ہیں”۔

اور سبھی فرشتے اللہ کی تعریف کرتے ہیں ﴿وَٱلۡمَلَٰٓئِكَةُ يُسَبِّحُونَ بِحَمۡدِ رَبِّهِمۡ﴾ [الشورى:٥] “اور تمام فرشتے اپنے رب کی تسبیح حمد کے ساتھ بیان کررہے ہیں “۔

اورہر نبی نے مختلف موقعوں پر اپنے رب کی تعریف کی ہےچنانچہ اللہ نے نوح علیہ السلام سے فرمایا: ﴿فَإِذَا ٱسۡتَوَيۡتَ أَنتَ وَمَن مَّعَكَ عَلَى ٱلۡفُلۡكِ فَقُلِ ٱلۡحَمۡدُ لِلَّهِ ٱلَّذِي نَجَّىٰنَا مِنَ ٱلۡقَوۡمِ ٱلظَّٰلِمِينَ﴾ [المؤمنون:٢٨] “پھر جب تو اور تیرے ساتھی کشتی پر باطمینان بیٹھ جاؤ تو کہنا کہ سب تعریف اللہ کے لیے ہی ہے جس نے ہمیں ظالم قوم سے نجات عطا فرمائی”،، اور ابراہیم علیہ السلام نےکہا: ﴿ٱلۡحَمۡدُ لِلَّه ِٱلَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى ٱلۡكِبَرِ إِسۡمَٰعِيلَ وَإِسۡحَٰقَۚ﴾ [إبراهيم:39] “تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے اس بڑھاپے میں اسماعیل واسحاق عطا فرمائے”، اور داود وسلیمان علیھما السلام نےکہا: ﴿ٱلۡحَمۡدُ لِلَّهِ ٱلَّذِي فَضَّلَنَا عَلَىٰ كَثِيرٖ مِّنۡ عِبَادِهِ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ﴾ [النمل:15] ” تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے ایمان دار بندوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے”، اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ اللہ کی حمد بیان کریں: ﴿قُلِ ٱلۡحَمۡدُ لِلَّهِ وَسَلَٰمٌ عَلَىٰ عِبَادِهِ ٱلَّذِينَ ٱصۡطَفَىٰٓۗ﴾ [النمل:59] “آپ کہہ دیں کہ تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام” ، اور اللہ نے اپنے بندوں کو حکم دیا کہ وہ اس کی تعریف کریں، فرمايا: ﴿وَقُلِ ٱلۡحَمۡدُ لِلَّهِ سَيُرِيكُمۡ ءَايَٰتِهِۦ فَتَعۡرِفُونَهَاۚ﴾ [النمل:93] “اور کہہ دیجئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کو سزاوار ہیں وہ عنقریب اپنی نشانیاں دکھائے گا جنہیں تم خود پہچان لوگے”، اور جن مومنوں سے جنت کا وعدہ کیا گیا ہے ان کی ایک صفت وخوبی یہ ہے کہ وہ اللہ کی حمد بیان کرتے رہتے ہیں ، فرمايا: ﴿ٱلتَّٰٓئِبُونَ ٱلۡعَٰبِدُونَ ٱلۡحَٰمِدُونَ﴾ [التوبة:112] “وہ ایسے ہیں جو توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے”۔ اسی طرح بادل کی گرج اورفرشتے بھی اللہ کے خوف سے اس کی تسبیح اورحمد بیان کرتے ہیں۔

نیزاللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہےکہ ہر وقت اور ہر جگہ اسی کے لئے تعریف ہے، ارشاد ربانی ہے: ﴿فَسُبۡحَٰنَ ٱللَّهِ حِينَ تُمۡسُونَ وَحِينَ تُصۡبِحُونَ ١٧ وَلَهُ ٱلۡحَمۡدُ فِي ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَعَشِيّٗا وَحِينَ تُظۡهِرُونَ ١٨﴾ [الروم:١٧-١٨] پس تم اللہ تعالیٰ کی تسبیح پڑھا کرو جب تم شام کرو اور جب صبح کرو اور تمام تعریفوں کے لائق آسمانوں اور زمین میں صرف وہی ہے تیسرے پہر کو اور ظہر کے وقت بھی اس کی پاکیزگی بیان کرو”۔

آسمان و زمین اور ان دونوں کے درمیان جو کچھ ہے سب اللہ تعالیٰ کی حمد وتعریف سے معمور ہے چنانچہ کائنات کاذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کی تعریف و تسبیح میں مصروف ہے: ﴿وَإِن مِّن شَيۡءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمۡدِهِۦ وَلَٰكِن لَّا تَفۡقَهُونَ تَسۡبِيحَهُمۡۚ﴾ [الإسراء:٤٤] “ایسی کوئی چیز نہیں جو اسکی پاکیزگی اور تعریف کے بیان نہ کرتی ہو، لیکن تم اس کی تسبیح سمجھ نہیں سکتے”۔

اللہ کی حمد وتعریف بیان کرنا ایک عظیم ذکر ہے جو اللہ تعالی کو پسند ہے، اور بندہ کےسارے کلام میں سب سے بہتر اللہ تعالی کی حمد ہے۔بندےکے شب وروزکاکوئی بھی لمحہ ایسا نہیں جو اللہ کی حمد وتعریف سے خالی ہو ، چنانچہ توحید اور اللہ کی تعریف پر ہی دین کا سارا دارومدار ہے ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿هُوَ ٱلۡحَيُّ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ فَٱدۡعُوهُ مُخۡلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَۗ ٱلۡحَمۡدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلۡعَٰلَمِينَ﴾ [غافر:٦٥] “وہ ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم لوگ بندگی کو اس کے لئے خالص کرکے اس کو پکارو، تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو سارے جہان کا رب ہے”۔

شیخ الاسلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” توحید ہی سے حمد کی تکمیل ہوتی ہے اورحمد توحید کا محوراور اس کا نقطہ آغاز ہے اسی لئے کلام کا آغاز حمدسےکیا جاتا ہےپھراس کے بعد کلمہ شہادت کا ذکرکیاجاتا ہے”۔

اسی طرح عبادتوں میں بھی اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لئے یہ مشروع قراردیا ہےکہ نمازکی شروعات حمد سے کریں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دن اور رات کی نماز کے شروع میں حمد کے مختلف الفاظ پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نماز میں یہ پڑھتے ہوئے سنا: (اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيراً، وَالحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيراً، وَسُبْحَانَ اللَّهِ بُكْرَةً وَأَصِيلاَ)، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «عَجِبْتُ لَهَا، فُتِحَتْ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ» (مسلم) “اس کلمہ پر مجھے تعجب ہے کہ اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے گئے”۔

اور سورہ فاتحہ سورہ حمد ہے جس کے بغیر کوئی نماز درست نہیں، اور جب بندہ رکوع سے سر اٹھاتا ہے تو (سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ) کہتا ہے ،یعنی اللہ نے اس بندہ کی دعا قبول کر لی جس نے اس کی تعریف کی۔ لہذااللہ تعالی کا اپنے بندہ کی دعا کو قبول کرنا یہ اس کی تعریف اور حمد پر منحصر ہے، اسی لئے حمد کو نماز کی روح اور اس کا ستون قرار دیا جاتا ہے ،چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس رکن (قومہ)میں کثرت سے اور مختلف الفاظ میں اللہ تعالی کی حمد بیان کیا کرتے تھے اور اس حمد کو کثرت،پاکیزگی اور برکت جیسےاوصاف سےمتصف کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو رکوع کے بعد(رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ حَمْداً كَثِيراً طَيِّباً مُبَارَكاً فِيهِ) پڑھتے ہوئے سنا ،تو فرمایا: «رَأَيْتُ بِضْعَةً وَثَلاَثِينَ مَلَكاً يَبْتَدِرُونَهَا أَيُّهُمْ يَكْتُبُهَا أَوَّلُ» (بخاری) “میں نے تیس سے زیادہ فرشتوں کو دیکھا کہ وہ اس پر باہم سبقت کررہے تھے کہ کون اس کو پہلے قلمبند کرے”۔

اور جو شخص نماز سےفارغ ہونے کے بعد اللہ کی حمداوراس کی کبریائی وپاکیزگی بیان کرتا ہے (یعنی سبحان اللہ،الحمد للہ اور اللہ اکبر کا ورد کرتا ہے) اس کے گناہ معاف کر دئےجاتے ہیں، چاہے وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں، نیزاس کے ذریعے انسان اپنے مال میں سےصدقہ وخیرات کرنے والوں کے رتبہ کو پالیتا ہے ( مسلم )۔

اور حج کے دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات میں اللہ کی حمد ہی میں مشغول رہتے تھے۔نیزحج کاشعارہی تلبیہ ہےجس میں یہ مفہوم شامل ہے کہ اللہ تعالی کمالِ حمد میں یکتاومنفردہے «إِنَّ الحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالمُلْكَ» (بخاری ومسلم) ۔

جمعہ،عیدین اور بڑے مجمعوں میں دینی خطبوں اور اسى طرح ہرمہتم بالشان کا م کاآغاز اللہ کی حمد سے کیا جاتا ہے۔

اور اللہ کی حمد و ثنا دلوں کو چھو لیتی ہے، ضماد الأزدي نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ کو اپنے کلمات کے آغاز میں رب کی تعریف و تحمید کرتے ہوئے سنا: «إِنَّ الحَمْدَ لِلَّهِ، نَسْتَعِينُهُ، وَنَسْتَغْفِرُهُ …»، ضماد نے بیساختہ نبی سے کہا کہ ان کلمات کو پھر دہرائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کلمات کو پھر پڑھا اور تین مرتبہ دہرایا، ضماد نے کہا : میں نے کاہنوں کے اقوال سنے ہیں اورجادوگروں کاکلام بھی سنا ہے نیزشعراءکی شاعری سے بھی میرے کان آشنا ہیں، لیکن آج تک میں نے آپ کے ان کلمات کی مانند کوئی کلام نہیں سنا، حقیقت تو یہ ہے کہ آپ کے کلمات (فصاحت وبلاغت اور تاثیر کے اعتبار سے) دریائے بلاغت کی تہہ تک پہنچ گئے ہیں، اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا لائیے اپنا ہاتھ بڑھائیے میں آپ سے اسلام پر بیعت کرتا ہوں ، کہتے ہیں کہ انہوں نے بیعت کرلی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم سے تمہاری قوم (کی طرف) سے بھی بیعت کر لوں؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں، میں اپنی قوم کی طرف سے بھی بیعت کرتا ہوں(مسلم ) ۔

اوراللہ تعالی کی حمدوثنا سے معمور مجالسِ ذکر میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور اللہ تعالی کو خبر دیتے ہیں کہ یہ لوگ اس کی تسبیح وتکبیر اور تہلیل و حمد میں منہمک ہیں اور اس سے دعائیں مانگ رہے ہیں، تو اللہ انہیں معاف کردیتاہے۔ (بخاری ومسلم) ۔

اور جو دعا حمد کے ساتھ شروع کی جاتی ہے وہ قبولیت کے لائق ہوتی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ – أَيْ: دَعَا –؛ فَلْيَبْدَأْ بِتَحْمِيدِ اللهِ وَالثَّنَاءِ عَلَيْهِ» (ترمذی) “جب تم میں سےکوئی بندہ دعا مانگے تو اس کی ابتداء اللہ کی حمد وثناء سے کرے”۔

جس طرح بندے کی عبادات اللہ تعالی کی حمد سےمربوط ہوتی ہیں اسی طرح دیگر مواقع پر بھی حمد اس کے شامل حال ہوتی ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کھانا کھاتے تو کہتے: «الحَمْدُ لِلَّهِ حَمْداً كَثِيراً طَيِّباً مُبَارَكاً فِيهِ»(بخاری)۔

اور کھانے پینے کے بعد اللہ تعالی کی حمد کرنا اللہ کی رضا اور اس سے قربت کا سبب ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إنَّ اللَّهَ لَيَرْضَى عَنِ العَبْدِ أَنْ يَأْكُلَ الأكْلَةَ فَيَحْمَدَهُ عَلَيْهَا، أَوْ يَشْرَبَ الشَّرْبَةَ فَيَحْمَدَهُ عَلَيْهَا» (مسلم) “بے شک اللہ تعالی اس بندے سے راضی ہوتا ہے جو ایک لقمہ بھی کھاتا ہے تو اس پراللہ کى حمد وتعریف کرتا ہے یا ایک گھونٹ بھی پیتا ہے تو اللہ کی حمد وتعریف کرتا ہے”۔

اور نعمتِ لباس بھی کھانے پینے کی نعمت کے برابر ہے چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نیا کپڑا پہنتے تو اس کپڑے کا نام لیتے پھر کہتے: «‎اللَّهُمَّ لَكَ الحَمْدُ أَنْتَ كَسَوتَنِيهِ» (احمد) “اے اللہ تیرے ہی لئے ساری تعریفیں ہیں تو نے ہی مجھے یہ پہنایا ہے”۔

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چھینکنے والے کو حکم دیا کہ وہ (الحَمْدُلِلهِ)کہے (بخاری)۔اور جب آپ سفر سے واپس آتے تو کہے: «آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَاجِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ» (بخاری ومسلم) ۔

” ہم سفر سے لوٹ رہے ہیں، اپنے رب سے توبہ کرتے ہوئے، اس کی عبادت اور اس کے لئے سجدہ كرتے ہوئے اور اپنے پروردگار کی حمدو ثنا بيان کرتے ہوئے”۔

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے والے کو ہدایت دی کہ وہ سونے سے پہلے تینتیس مرتبہ الحمدلله کہے اور یہ سبحان الله اور الله أكبر کے ساتھ اس کے لیے نوکر سے بہتر ہے (مسلم)۔

اور سونے کے بعد اللہ تعالی جس کی روح کو واپس لوٹادیتا ہےاس کو زیادتی عمر کی نعمت سے نواز دیتا ہے جس میں وہ مزیدخیر وبھلائی کاکام کر لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوتے تو فرماتے: «الحَمْدُ لِلَّهِ الذي أحْيَانَا بَعْدَ ما أمَاتَنَا وإلَيْهِ النُّشُور» (مسلم) “سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے”۔

اللہ تعالی کی حمد وتسبیح سے دل کوسكون میسر ہوتاہے اور معاملات میں آسانی پيدا ہوتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نےفرمایا: ﴿وَلَقَدۡ نَعۡلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدۡرُكَ بِمَا يَقُولُونَ٩٧ فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِرَبِّكَ وَكُن مِّنَ ٱلسَّٰجِدِينَ ٩٨﴾ [الحجر:٩٧-٩٨] “اور ہم یہ خوب جانتے ہیں کہ ان کی باتوں سے آپ پریشان اور تنگ دل ہوتے ہیں * پس آپ اپنے رب کی تعریف بیان کیجئے اور اس کے حضور سجدہ کرتے رہئے”۔

اور جو شخص ایک بار حمد کے لئے اپنی زبان کو حرکت دے گا، اسے ہر حمد کے بدلے اپنے مال سے صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «كُلُّ تَحْمِيدَةٍ صَدَقَةٌ» (مسلم) “ہر تحمید صدقہ ہے”۔

اللہ تعالی کے نزدیک چار سب سے زیادہ محبوب کلمات میں سےایک حمد بھی ہے، اوریہ چاروں کلمات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کودنیا اوردنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ پسندیدہ ہیں (مسلم)۔

اورجوہمیشہ اللہ تعالی کی حمدوتعریف میں مصروف رہتا ہےوہ دوسروں پہ سبقت حاصل کر لیتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «مَنْ قَالَ حِينَ يُصْبِحُ وَحِينَ يُمْسِي: سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ مِائَةَ مَرَّةٍ، لَمْ يَأْتِ أَحَدٌ يَوْمَ القِيَامَةِ بِأَفْضَلَ مِمَّا جَاءَ بِهِ إِلَّا أَحَدٌ قَالَ مِثْلَ مَا قَالَ أَوْ زَادَ عَلَيْهِ» (مسلم) ” جو شخص صبح و شامسبحان الله وبحمده سو مرتبہ پڑھے تو قیامت کے دن اس سے افضل عمل کسی کا نہیں ہوگا، سوائے اُس شخص کے جس نے اِس کے برابر یا اس سے زیادہ ان کلمات کو پڑھا ہو”۔

اور (الحَمْدُلِلهِ) کے ساتھ (لَا إِلَهَ إِلَّا الله) کاوِردکرناگردنیں (غلام یاباندی)آزاد کرنے کے برابر ہے، اور گناہوں اور برائیوں کو مٹانے كا سبب ہے، اور “جو (سُبْحَانَ اللَّهِ العَظِيْمِ وَبِحَمْدِهِ) کہتا ہےاس کے لیے جنت میں کھجور کا ایک درخت لگا دیا جاتا ہے”(ترمذی)۔

اور حمد کے کچھ الفاظ ایسے ہیں جن کا ثواب دوگنا ہوتا ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جویریہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : «لَقَدْ قُلْتُ بَعْدَكِ أَرْبَعَ كَلِمَاتٍ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، لَوْ وُزِنَتْ بِمَا قُلْتِ مُنْذُ اليَوْمِ لَوَزَنَتْهُنَّ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ عَدَدَ خَلْقِهِ، وَرِضَا نَفْسِهِ، وَزِنَةَ عَرْشِهِ، وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ» (مسلم) “میں نے تمھارے بعد تین بار چارایسے کلمات کہے ہیں، جنہیں اگر ان کلموں کے ساتھ وزن کیا جائےجو تم نے اب تک کہے ہیں تو وہ ان پر بھاری ہو جائیں گے وہ کلمات یہ ہیں: (سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، عَدَدَ خَلْقِهِ، وَرِضَا نَفْسِهِ، وَزِنَةَ عَرْشِهِ، وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ)۔

حمد و تسبیح زبان پر ہلکے اور ترازو میں بھاری ہیں، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «كَلِمَتَانِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ، ثَقِيلَتَانِ فِي المِيزَانِ، حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللَّهِ العَظِيمِ» (بخاری ومسلم) “دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر ہلکے، میزانِ (اعمال) میں بھاری اور رحمان کو بہت پیارے ہیں اور وہ ہیں: (سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللَّهِ العَظِیمِ)۔

اور (الحَمْدُ لِلَّهِ) ترازو کو بھر دیتے ہیں (یعنی اس کا ثواب اس قدر عظیم ہے کہ اعمال تولنے کا ترازو اس کے اجر سے بھر جائے گا) (مسلم)، اور (سُبْحَانَ اللَّهِ) و (الحَمْدُ لِلَّهِ) آسمانوں اور زمین کےدرمیان کو بھر دیتے ہیں۔

اور جس طرح ہر کام کی ابتدا حمدسے کی جاتی ہے اسی طرح ہر کام کا اختتام بھی حمد سے کیاجاتا ہے، پس “جو شخص کسی مجلس میں بیٹھے اور اس سے لغووفضول باتیں ہو جائیں پھروہ اپنی مجلس سے اٹھنے سے پہلے یہ دعا پڑھ لے: (سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ) تو اس مجلس میں اس سے ہونے والی لغزشیں معاف کردی جاتیں ہیں”(ترمذی) ۔

اور جب اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں دین کو مکمل کر دیااور آپ پر نعمت پوری کردی اور آپ کی موت کاوقت قریب آگیا تو اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: ﴿فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّكَ وَٱسۡتَغۡفِرۡهُۚ﴾ [النصر:3] “تو آپ اپنے رب کی پاکی بیان کیجئے، اس کی حمد و ثنا کیجئے اور اس سے مغفرت طلب کیجئے”۔

اور ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ اللہ تعالی کی حمد کیا کرتے تھےاور قیامت کے دن اللہ تعالی آپ کو مقام محمود پر فائز کریں گے جس پر تمام خلقت آپ کی تعریف کرے گی، اور آ پ قیامت کے دن آئیں گے آپ کے ہاتھ میں حقيقی اور معنوی حمد کا جھنڈا ہو گا اور تمام خلقت اس جھنڈے کے نیچے ہو گی، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَومَ القِيامَةِ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الأَرْضُ وَلَا فَخْرَ، وَبِيَدِي لِوَاءُ الحَمْدِ وَلَا فَخْرَ، آدَمُ فَمَنْ دُونَهُ تَحْتَ لِوَائِي» (أحمد) ” میں قیامت کے دن تمام بنی آدم کا سردارہوں گا، اور میں یہ بطور فخر نہیں کہتا اور سب سے پہلا شخص میں ہوں گا جس سے زمین شق ہو گی (یعنی سب سے پہلے قبر سے مجھے اٹھایاجائےگا) میں یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا، اور (قیامت کے دن مقام محمود میں ) حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا اور میں یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا، اس دن آدم اور دوسرے سارے لوگ میرے جھنڈے تلے ہوں گے”۔

اور جس طرح اللہ تعالی نے تخلیق کا آغاز حمد سے کیا اسی طرح اس جہان کا اختتام بھی حمد سے کیا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿وَقُضِيَ بَيۡنَهُم بِٱلۡحَقِّۚ وَقِيلَ ٱلۡحَمۡدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلۡعَٰلَمِينَ﴾ [الزمر:٧٥] “اور لوگوں کےدرمیان حق وانصاف کے مطابق فیصلہ کردیا جائے گا، اور ہر طرف یہی کہا جائے گا کہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو سارے جہان کا پالنے والا ہے”۔

ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “انسان اور بےزبان ہرمخلوق غرضیکہ پوری کائنات اللہ پروردگارِعالم کی اس کے فیصلےاورانصاف میں حمد وتعریف کرے گی ، اسی لئے اللہ نےحمد کى نسبت کسی قائل کی طرف نہیں کیا ہے، بلکہ مطلقاً ذکر کیا ہے لہذااس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ساری مخلوقات نے اللہ کے حمد کی شہادت دی ہے” ۔

اور حمد اللہ سبحانہ کے لئے دنیا میں بھی ثابت اور برقرار ہے اور آخرت میں بھی قائم ودائم رہے گی۔لہذا جب جنتی جنت میں داخل ہوں گے تو ان کا سب سے پہلا کلمہ (الحَمْدُلِلهِ) ہوگا ، اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے: ﴿وَقَالُواْ ٱلۡحَمۡدُ لِلَّهِ ٱلَّذِي هَدَىٰنَا لِهَٰذَا وَمَاكُنَّا لِنَهۡتَدِيَ لَوۡلَآ أَنۡ هَدَىٰنَا ٱللَّهُۖ﴾ [الأعراف:٤٣] اور وہ کہیں گے کہ سب تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں اس راہ پر ڈالا، اگر اللہ ہماری رہنمائی نہ کرتا تو ہم ہدایت نہیں پاسکتے تھے” ۔اور جنتي جنت میں حمد و تعریف اسی طرح جاری رکھیں گے جیسے ان کی سانس جاری رہےگی،الله تعالى كا ارشادہے: ﴿دَعۡوَىٰهُمۡ فِيهَاسُبۡحَٰنَكَ ٱللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمۡ فِيهَا سَلَٰمٞ ۚوَءَاخِرُدَعۡوَىٰهُمۡ أَنِ ٱلۡحَمۡدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلۡعَٰلَمِينَ﴾ [يونس:١٠] “وہاں ان کی دعا سبحانک اللہم ہوگی اور ان کا آپس کا سلام و تحیہ سلام علیکم ہوگا، اور ان کی دعا کا اختتام الحمدلله رب العالمين ہوگا” ، بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “یعنی وہ اپنی بات تسبیح سے شروع کریں گےاورحمد پہ ختم کریں ” ۔

اے مسلمانو!

دنیا اور آخرت، آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اور جو کچھ ان میں ہے وہ سب اللہ تعالی کی حمد سے معمور ہے، اور جو بندے اس كی حمد یا اس کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں اللہ تعالی ایسے لوگوں سےبے نیاز ہے، اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے: ﴿إِن تَكۡفُرُواْ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَنِيٌّ عَنكُمۡۖ وَلَا يَرۡضَىٰ لِعِبَادِهِ ٱلۡكُفۡرَۖ وَإِن تَشۡكُرُواْ يَرۡضَهُ لَكُمۡۗ﴾ [الزمر:٧] “اگر تم ناشکری کروگے تو اللہ تعالی تم سے بے نیاز ہے، اور وہ اپنے بندوں کے لئے ناشکری پسند نہیں کرتا ہے، اور اگر تم شکر گذار بنو گے تو وہ تمہاری طرف سے اسے پسند کرے گا”۔

تمام نعمتیں اسی کی حمد سے شروع ہوتی ہیں اور اسی کی حمد پر اختتام پذیرہوتی ہیں۔وہ پاک ہے اور وہی معبود بر حق اور تمام تعریفوں کا مستحق ہے۔ حمد اور شکر کے ساتھ نعمتیں باقی رہتی ہیں اور بڑھتی رہتی ہیں، لہذااللہ کی، اس کے دین کی اور اس کی شریعت کی حمد و تعریف کثرت سے کرتے رہو، کیونکہ اس چیز کی تعریف کرنا جو اللہ کو پسند ہے وہ حقیقت میں اللہ تعالی ہی کی حمد و ثنا ہے ۔

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

﴿وَهُوَ ٱللَّهُ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَۖ لَهُ ٱلۡحَمۡدُ فِي ٱلۡأُولَىٰ وَٱلۡأٓخِرَةِۖ وَلَهُ ٱلۡحُكۡمُ وَإِلَيۡهِ تُرۡجَعُونَ﴾ [القصص:٧٠] “اور وہ اللہ ہے، اس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے، ساری تعریفیں دنیا وآخرت میں اسی کے لئے ہیں، اور ہر جگہ اسی کی حکمرانی ہے، اور اسی کی طرف تم سب لوٹائے جاؤگے”.

اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کےلئے قرآن کریم کوبا برکت بنائے۔۔۔


دوسرا خطبہ

اللہ کی حمد و ثنا ہے اس کے احسانات پر اور اس کا شکر ہےاس کی توفیق اور انعامات پر۔ اللہ کی عظمتِ شان کااعتراف کرتے ہوئےمیں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی برحق معبود نہیں، وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر اور آپ کے تمام آل و اصحاب پرمزید درودوسلام نازل فرمائے ۔

اے مسلمانو !

حمدتسبیح سےمربوط اور اس کےتابع ہے، چنانچہ تسبیح کامطلب ہے اللہ تعالی کو تمام نقائص سے منزہ ومبراقراردینااور حمدکامطلب ہے عمومی اور تفصیلی ہرطورپر اللہ تعالی کےلئے اوصافِ کمال وجمال ثابت كرنا لہذادونوں ایک دوسرے کےلئے لازم ملزوم ہیں چناچہ اگران میں سے کسی ایک کا تذکرہ کیا جائے تو دوسرا اس کے معنی میں شامل ہوجاتا ہے ۔

بندےکااپنے رب کو یاد کرنا اور اس کا ذکر کرتے رہنا اپنے پرودگار سے اس کی سچی محبت کی علامت ہےاور جو خوش حالی میں اپنے رب کویادرکھتا ہے اور اس کی حمد کرتا رہتا ہے تو اس کا رب اس کو اس کی تنگ حالی میں یاد رکھتا ہے اورجوکثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہے وہ کامیاب لوگوں میں سے ہے ۔

پھر جان لو کہ اللہ نے تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا حکم دیا ۔۔۔